ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیںابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
مت کیا کرو اتنے گناہ توبہ کی آس پر اے انسان
بے اعتبار سی موت ہے نہ جانے کب آجائے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔
دل میں خدا کا ہونا لازمی ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا خود کو مسلماں کہتے کہتے
کون کہتا ہے ،خدا نظر نہیں آتا
وہی تو نظر آتا جب کچھ نظر نہیں آتا
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوںمری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں