رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں
مگر گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
اک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے
انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں ، شامیں اسکی
بس مدت اسے دیکھا ، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا ، لوگو
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنہوں نے ہاتھ بڑھا یا تھا رہنمائی کا
تیری دنیا سے نکل جاؤں میں خاموشی کے ساتھ
قبل اس کے تو مرے سائے سے کترانے لگے
تم مجھے بھول بھی جاؤ تویہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے محبت کی ہے
میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کس شے کی
کہ سب کا ہو کے رہا وہ بس اک مرا نہ ہوا
ہاتھ بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی
اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا ہے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
وہ تو جان لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
طلاق دے تو رہے ہو غرور و قہر کے ساتھ
میرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ