ہم تو آنکھیں ہی دیکھ کر فنا ہو گئے اُسکی
اُس نے پردہ نہ کیا ہوتا تو ہم پردہ کر گئے ہوتے
تیری آنکھوں کے جادو سے تو خود نہیں ہے واقف
یہ اسے بھی جینا سکھا دیتی ہے جسے مرنے کا شوق ہو
اب بکھرے گا ترے گالوں پہ تیری آنکھوں کا پانی
تب تجھے احساس ہو گا کہ محبت کسے کہتے ہیں
چکھ کے دیکھ لی دنیا بھر کی شراب
جو نشہ تیری آنکھوں میں تھا وہ کسی میں نہیں
تم نے کہا تھا آنکھ بھر کے دیکھ لیا کرو مجھے
اب آنکھ بھر آتی پر تم نظر نہیں آتے
تمہاری یاد میں آنکھوں کا رتجگا ہے
کوئی خواب نیا آئے تو وہ کیسے آئے
جھیل اچھا کنول اچھا کہ جام اچھا ہے
تیری آنکھوں کے لیے کونسا نام اچھا ہے
جب بھی میں دیکھتا ہوں
مجھ سے ہر بار نظریں چرا لیتی ہے
میں نے کاغذ پر بھی بنا کہ دیکھی ہیں آنکھیں اسکی
کیا کشش تھی تمہاری آنکھوں میں
تمہیں دیکھا اور تمہارا ہو گیا