دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
موت آجائے غالب
دل نہ آئے کسی پہ
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہےرنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالب
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے
اس کی سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ ؟
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے بیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
ان کے دیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی